صرف ایک تماشائی کے لئے کھیل کھیلنا - کیٹی پرکنز، نیوزی لینڈ
ذہنی طو ر پر نیو زی لینڈ کی قو می کر کٹ ٹیم کی نو جو ان کھلا ڑی کے طو ر پر ا پنے آپ کو تیا ر کر تے ہو ئے،کیٹی پا ر کنز نے20سا ل کی عمر تک اپنےآپ کو کھو یا ہو ا اوراپنے مقر رہ ہد ف سے بہت دور پا یا۔لیکن جب اُس نے اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دیا تو اُس نے ا یتھلیٹس کےمیدان میں دوبا رہ سے خا ص مقا م کی طرف سفر شروع کر دیا۔اُس نے جنو ری 2012میں نیو زی لینڈ وا ئٹ فررن کی طرف سے اپنے کھیل کا آغا ز کیا اور تب سے 100سے زائد بین الاقوامی مقا بلوں میں شرکت کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نیو زی لینڈ کی پو لیس میں ملازمت بھی کر تی ہیں۔30سا لہ پا ر کنز خدا کے سا تھ ا پنے تعلق کو پنے ہر ایک کا م سے زیادہ تر جیح دیتی ہیں۔
نیو زی لینڈ کی کر کٹ ٹیم میں کھیلنا ،یہ ا یک ایسا خو اب تھا جس کے علاوہ میں نے کبھی کو ئی اور خو اب دیکھا ہی نہ تھا۔ 5سا ل کی عمر سے لے کر مجھے اس خو اب کے علاوہ اور کسی چیز نے آگے بڑھنے کے لئے مجبور نہ کیا تھا۔میرے اور بھی شو ق تھے مگر کر کٹ کھیلنے کا جنون ان میں سب سے زیا دہ تھا ۔
میں شر وع ہی سے چر چ جا تی تھی۔اور میر ے خا ندان کی وجہ سے میر ی ز ند گی پر خدا کاایک گہرا اثر قا ئم تھا۔میں ایک ا چھی بچی تھی اور جوکچھ سنڈے سکول میں سیکھا یا جا تا تھا میں اُس کی پا بند ی بھی کر تی تھی ۔ ایک اچھی بچی ہو نا اور خدا کو جا ننا یہ دونو ں الگ الگ با تیں ہیں۔جب تک میں 15سا ل کی نہ ہو گئی میں نے خد اکے ساتھ اپنے ذاتی تعلق کو سمجھنا شروع نہ کیا اس تعلق کو سمجھنے میں میری مدد میری ایک راہنما دوست نے کی۔پھر ایک دن صبح کے وقت چرچ میں میں نے خدا سے دُعا کی کہ میں اُس کی پیروی کرنا چاہتی ہوں اور اُس کے ساتھ رہ کر اپنی زندگی اُس کے جلال کے لیے گزارنا چاہتی ہوں۔ٹھیک اُسی وقت میں پاک روح سے بھر گئی اور میرے احساسات اور جذبات میں حیران کن حد تک اضافہ ہو گیا جس کا بیان میری سمجھ سے باہر ہے۔
لیکن کیونکہ میں کرکٹ سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتی تھی اس لیے کھیل کے میدان میں نمایا ں مقام کا حصول میرے لیے خدا کا درجہ اختیار کر گیا تھا۔کھیل کے میدان میں ہار اور جیت میری ذاتی حیثیت کا درجہ اختیار کر چکی تھی۔ میرے رویہ کا انحصار اس چیز پر ہوتا کہ اُس دن میں نے کیسا کھیل کھیلا۔
2010 – 2011 میں مشکل ترین حالات کا سامنا کرنے کے بعد میرا وائٹ فررن کی طرف سے کھیلنے کا خواب پہلے سے اور زیادہ شدت اختیار کر گیا۔اب مجھے تبدیلی کی ضرورت تھی ۔اس کے بعد کھیلوں میں آنے والے وقفہ نے میری زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔
اپریل 2011 میں میں ایک ’’الٹی میٹ ٹریننگ کیمپ‘‘ میں گئی جس کا مرکز مسیح تھا۔وہاں میں ایسے ایتھلیٹ سے ملی جو خدا سے محبت کرتے اور خدا ترس دل رکھتے تھے۔ وہ سب کھیل کے ماحول میں خدا کی موجودگی کو اور بہتر طور پر سمجھنا چاہتے تھے۔اُس وقت میں اس حقیقت سے آشنا ہوئی کہ میرے کھیل کے نتائج سے خدا کو کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ اس بات کی پروا کرتا ہے کہ میں نے کھیل کیسا کھیلا۔میں نے خدا کے لیے کھیلنا سیکھا۔سامعین کے لیے اپنی اصلی قدروقیمت کو جانا جو صرف مجھے خدا میں ہی مل سکتی تھی۔
جیسے ہی موسم سرما کا آغاز ہوا۔تو میری بہترین دوست نے مجھے چیلنج کیا کہ کرکٹ کے کھیل میں تمہارے ساتھ خدا کہاں ہے۔حقیقت تو یہ تھی کہ وہ سچ میں وہاں نہ تھا،تمام تر دُعاؤں اور مشکلات کا سامنا کر نے کے باوجود شاید میں وائٹ فررن کا کبھی بھی حصہ نہیں بن پاؤں گی۔ میں نے اس بات کو سمجھنا شروع کر دیا کہ میں جس حالت میں بھی ہوں اپنے آپ سے پیار کروں بجائے اس کے میں نے کیا حاصل کیا ہے۔پھر اُس کے بعد جب دوبارہ کھیلوں کے مقابلوں کا سیزن آیا۔ تو میں نے اپنے خواب کو چھوڑ دیا اور اپنی کرکٹ کی مہارت کو خدا کے حوالہ کر دیا۔
جس آزادی اور خوشی کے ساتھ میں نےاُس سیزن میں کھیل اور ایک تسلسل اور کامیابی کا تجربہ کیا اُس سے پہلے کبھی ایسا تجربہ نہ کیا تھا ۔اور فون کالز موصول ہوئیں جس سے میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے اور میں خود کو وائٹ فرن محسوس کرنے لگی۔
میری خواہش تھی کہ میں ایسا کہہ پاتی کہ میں ہمیشہ اسی طرح کی خوشی اور آزادی کے ساتھ کھیلتی رہی ہوں مگر ایسا نہ تھا۔ میں نے مسلسل مشکلات کا سامنا کیا تھا۔جیسے جیسے میری زندگی اور کر کٹ ایک راستہ پر چلتے تھے میں نے اپنی زندگی کے توازن میں بگاڑ پیدا کر لیااور ایک دفعہ پھر سے کر کٹ کو اہمیت دینا شروع کرد ی۔
T20 ولڈ کپ کے سیمی فائنل میچ میں کر کٹ سے میرا لگاؤ نہ ہونے کے برابر تھا۔ میرا جوش بہت کم تھا۔میں جانتی تھی کہ یہ خدا ہےجس کی کمی میری زندگی میں ہے۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں اپنی دعائیں بہرے کانوں کو سنا رہی ہوں مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔میں خود خدا کی آواز کو سننے کے لیے تیار نہ تھی اور بہری ہو چکی تھی۔
جب میں واپس نیوزی لینڈ پہنچی تو میں نے مدد ڈھونڈنے کی کوشش ۔میں اپنے چپلنز اور نفسیاتی کوچز سے ملی۔میں نے چرچ جانے کے نظم وضبط کو بہتر کیا اور اپنے کھیل کو اس راستہ میں رکاوٹ بننے سے روکا۔اب میرے کام میں بہتری آ رہی تھی۔لیکن میں یہ بھی جانتی تھی کہ میں صحیح راستہ پر ہوں۔اور خدا کے نزدیک سے نزدیک تر ہوتی جارہی ہوں۔
جب میں ہار جاتی تو اکثر میرا رویہ اچھا نہ ہوتا اور یہ ایک مسلسل جاری رہنے والی جنگ تھی ۔لیکن میں ہمیشہ خود کو خدا کی سچائی یاد کرواتی کہ میں با صلا حیت ہوں مجھ سے مکمل طور پر محبت رکھی گئی ہے۔جب کبھی میں خود اعتمادی میں کمی کا شکار ہوتی ہوں تو میں خود کو 2–تیمتھیس7:1 یاد دلاتی ہوں جو کہتی ہے،کیونکہ خُدا نے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور محبت اور تربیت کی روح دی ہے۔
میں اس مضبوط سچائی کو ایسے ہی دیکھتی ہوں جیسے ایک 100 میٹر کی دوڑ میں دوڑنے والا کھیل کے شروع ہونے سے پہلے ابتدائی بلاک میں کھڑاہوتا ہے۔بندوق کی آواز اور دوڑ کے اختتام کے درمیان پر جو کچھ بھی ہوتا ہے ۔ اس کا فوری اثر دوڑنے والے کی مستقبل کی زندگی پر پڑتا ہے ۔لیکن اُسی ایتھلیٹ کے لیے ابتدائی بلاک سے لے کر دوڑ کے اختتام تک خدا کی محبت اور قربانی میں ذرہ برابربھی فرق نہیں آتا ۔
اور اب میرا مقصد یہی ہوتا ہے کہ میرا ایمان میرے کھیل اور میری زندگی میں ایک خاص کر دار ادا کرے۔اور جب میں اسی طرح کا ایمان دوسرے کھلاڑیوں میں دیکھتی ہوں تو اُن کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں۔
کیٹی کی پسندیدہ آیت:
’’کیونکہ خُدا نے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور محبت اور تربیت کی روح دی ہے‘‘۔2تیمتھیس7:1