SportGoMag is for sportspersons around the world to tell their life, sport and faith in Christ-centered stories.

اُس کا جاننا جو زندگی دیتا ہے - تِنو یوحنن ،انڈیا

ٹینو یوحنن جو انڈیا کے باؤلر رہ چکے تھے۔2014-2018  میں انہوں نے کیرالہ سٹیٹ ٹیم کے باولنگ کوچ کی حیثیت سے دوبارہ کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا۔اب وہ کیرالہ کے کوچنگ سٹم اور اکیڈمی بورڈ کے انچارچ کی حیثیت  سے کام کر رہے ہیں۔

میں ایک کھلاڑیوں کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں ۔میرے والد،ٹی۔سی۔ یوہاننن، وہ پہلے ایشین اتھلیٹ تھے۔جنہوں نے لونگ جمپ میں 8 میٹر کا جمپ لگایا تھا۔ ایتھلیٹکس میں اُن کی اس قدر  شاندار کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ میری ذاتی خواہش بن گئی کہ میں بھی ایتھلیٹکس میں کامیابی حاصل کروں۔ مجھے سخت محنت کرنا پڑی اور اس کے بعد ہی میں اس قابل ہوا کہ میں اپنے اسکول کے سالوں میں  ملکی سطح پر منعقد ہونے والے کچھ ہائی جمپ کے مقابلوں میں شرکت کر پایا۔اور پھر اسکول کے آخری سال میں میری رغبت کر کٹ کی طرف بڑھتی گئی :جب میں نے اس کھیل کو کھیلنا شروع کیا تو مجھےمعلوم ہوا کہ میں تیز گیند بازی میں مہارت رکھتا ہوں۔میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی اس مہارت کو ایک بار آزماؤں گا اور جلد ہی میں اس بات کو سمجھ گیا کہ میں اس کھیل میں کچھ بڑا کر سکتا ہوں۔

خدا کے فضل سے مجھے موقعہ ملا کہ میں دنیائےکرکٹ کے ایک نامور باؤلر ڈینس للی جو آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی رہ چکے ہیں ان سے تربیت لے سکوں۔پانچ سال اُن کی راہنمائی میں رہتے ہوئے میں نے وہ تمام چیزیں سیکھیں جن کا کھیل سے تعلق تھا۔مجھے 2001  میں موقع ملا کہ میں ملکی سطح پر انڈیا کی ٹیم کی نمایندگی کر  سکوں۔

یہ ایک خواب تھا جو پورا ہوا ۔نہ صرف میرے لیے بلکہ ریاست کیرالہ کے لیے بھی جو جنوبی بھارت  کےآخر میں واقع ہے۔اس سے پہلے کیرالہ سے کسی کو بھی یہ عزاز حاصل نہ تھا  کہ وہ ملکی سطح پر نمایندگی کر پائے یہ میرے لیے بڑے فخر کی بات تھی کہ میں کھیل کے ذریعہ نہ صرف کیرالہ بلکہ اپنے ملک کی نمایندگی کر پایا۔

دسمبر 2001 میں جب میں نے پہلی دفعہ میچ کھیلا تو اپنے پہلے ہی اوور کی چوتھی گیند پر  میں نے پہلی وکٹ حاصل کی۔میں نے  اس نئی  پچ پر بہت جلد کامیابی حاصل کی۔21 سال کی عمر میں مجھے لگا کہ میں نے کچھ کر  دیکھایا ہے۔مجھے کوئی بھی روک نہیں سکتا تھا۔اور نہ ہی کوئی کھیل سے مجھے دُور کر سکتا تھا۔میں  اس لمحہ  کے انتظار میں تھا۔مجھے یہ بھی موقعہ  مِلا کہ میں اپنے  سب سے پسندیدہ کھلاڑی سچن ٹنڈولکر کی ٹیم میں اُس کے ساتھ کھیل  سکا۔

میں اپنی قومی ٹیم کے ساتھ سفر کرتا اور اگلے دو سالوں تک کھیلتا رہا جب تک کہ 2003 میں مجھے  ایک  چوٹ کا سامنا نہ  کرنا  پڑا۔شروع میں مجھے لگا کہ میں اس  جھوٹ پر قابو پالو نگا۔میں سوچتا تھا کہ  میں ٹیم کی ضرورت  بن  چکا ہوں ۔لیکن زندگی کی حقیقت نے میرے سامنے اس خلا صہ کو کھولا کہ مواقعے بار بار نہیں ملتے۔حقیقت میں یہ سب کچھ اتنا آسان نہ تھا۔چار سال  میں نے مزید محنت کی۔تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود بھی میں ٹیم میں  واپس جگہ نہ بنا پایا۔

ایک ایسے گھرانے میں پرورش کی  وجہ سے جو خداوند یسوع مسیح کی پیروی کرتا تھا۔میں بھی دعا کرتا اور بائبل مقدس پڑھتا تھا۔میں ایک نامی مسیحی تھا جو کہ مسیح کا ایک پیروکار تھا۔جو ہر دن اپنے خاندان کے ساتھ مل کر دعا  کرتا اور بائبل پڑھتا تھا۔مگر یہ بات تب تک سامنے نہ آئی جب  تک میں کرکٹ کے میدان میں اپنی جگہ  نہ کھو رہا تھا۔تب اچانک  سے میں نے اس بات کو جانا کہ مجھے خدا کے نزدیک آنے کی ضرورت ہے۔مجھے راحت اور اطمینان ملنے لگا۔لیکن جب ایسا نہ ہوا تو میں نے خدا کی طرف دیکھنا شروع کیا۔اوروہ مختلف لوگوں کو میری زندگی میں لانے لگا۔ اُن لوگوں کو جن کو میں نہیں جانتا تھا۔جنہوں نے مجھے بتایاکہ میری زندگی میں خدا کا مقصد اور منصوبہ ہے۔اُنہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ (خدا) خودمیری حفاظت کرے گا۔

اور پھر میں خدا کے کلام کو اور زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کرنے  لگا۔2007 میں میری زندگی میں ایک دفعہ پھر سے یوٹرن آیا۔اور پھر ایک دن اچانک نہ صرف میں نے خدا کو اچھے سے جان لیا بلکہ یہ بھی کہ مسیح  کون ہے میں خدا سے دعا کرنے لگااور بائبل کو پڑھنا شروع  کر دیا لیکن اُس سے پہلے میں  کبھی یسوع مسیح کو بہتر  طور پر نہیں جانتا تھا۔میں نے اس بات کوسمجھ لیا کہ یسوع میرے لیے موا۔اُس نے اپنی زندگی دی تاکہ میں اُس میں      زندگی پاؤں۔وہ خدا ہے اور وہ مجھ میں  رہتا ہے۔

اس مکاشفہ نے میری زندگی کو اچانک  سے بدل دیا تھا۔جیسے ہی میں اُس دن اپنے پاسٹر سے ملا تو میں اپنی زندگی کو اُس کی طرف مڑتا ہوا   دیکھ رہا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں یہ جانتا تھاکہ آسمان کا خدا میرے ساتھ ہے اور وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔یہ ایک شاندار یاد دہانی تھی۔جس نے مجھے نئی زندگی دی۔

اُس دن خدا میرے ساتھ بڑے واضح طور پر ہمکلام ہوا اور مجھے بتایا کہ وہی اکیلا ہے جو زندگی بخشا ہے۔ کوئی بھی چیز اُس سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔میں جو کچھ بھی   کرتا ہوں وہ خدا کے لیے ہے کیونکہ وہی اکیلا ہے جس نے مسیح کے وسیلہ مجھے حقیقی زندگی اور سکون بخشا اس مکاشفہ نے مجھے ذہنی دباؤ ،ڈر اور پریشانی سے محفوظ رکھا۔کرکٹ کھیلنے کے عرصہ کے دوران مجھے جتنی بھی مشکلات اور پریشانیوں کا بوجھ تھا ۔سب ایک دم سے دور کر دیا گیا تھا۔

اُس دن سے  اب تک  جب بھی میں کرکٹ کے میدان میں داخل ہوتا ہوں تو میں جانتا ہوں کہ اب یہ میں نہیں ہوں بلکہ خدا مجھ میں سے ہو کر کام کر رہا ہے۔بائبل مقدس میں رومیوں کے خط 4:6 میں لکھا ہے۔’’ پس موت میں شامل ہونے کے بپتسمہ کے وسیلہ سے ہم اُسکے ساتھ دفن ہوئے تاکہ جس طرح مسیح  باپ کے جلال کے وسیلہ سے مردوں میں سے جلایا گیا اُسی طرح ہم بھی نئی زندگی میں چلیں۔‘‘اب میں پُرانا تِنو نہیں رہا تھا۔اب میں مسیح میں رہتا ہوں اور وہ مجھ میں وہی میری راہنمائی کرتا ہے۔

بائبل مقدس میں میری پسندیدہ آیت زبور 8:32 ، ہے جس میں لکھا ہے۔’’میں تجھے تعلیم دونگا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہو گا تجھے بتاؤ نگا۔میں تجھے صلاح دونگا ۔میری نظر تجھ پر ہو گی ۔‘‘  اور یہ سچ اب میری زندگی کی حقیقت اور ستون بن چکا ہے۔اور جس سے مجھے قوت ملتی ہے۔

آپ  اس دنیا میں جو کچھ مرضی حاصل کر لیں۔نام،دولت،شہرت،یسوع کے مقابلہ میں اُن کی کوئی وقعت نہیں۔آپ کی روح اس دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے۔آپ کے پاس اپنی روح کو بچانے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ صرف یسوع مسیح کے ذریعہ ممکن ہے۔خدا باپ کے پاس جا نے کا  اکیلا راستہ وہی  مسیح ہے۔میں آج جس حقیقی خوشی کا تجربہ کرتا ہوں وہ ہمارے خداوند اور نجات دھندہ یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہے۔۔

ٹینو کی پسندیدہ آیت :

’’میں تجھے تعلیم دوں گا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہو گا تجھے بتاؤں گا۔میں تجھے صلاح دُوں گا۔ میری نظر تجھ پر ہوگی۔زبور 8:32

اُس کا جاننا جو زندگی دیتا ہے - تِنو یوحنن ،انڈیا

May 13, 2019

ٹینو یوحنن جو انڈیا کے باؤلر رہ چکے تھے۔2014-2018  میں انہوں نے کیرالہ سٹیٹ ٹیم کے باولنگ کوچ کی حیثیت سے دوبارہ کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا۔اب وہ کیرالہ کے کوچنگ سٹم اور اکیڈمی بورڈ کے انچارچ کی حیثیت  سے کام کر رہے ہیں۔

میں ایک کھلاڑیوں کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں ۔میرے والد،ٹی۔سی۔ یوہاننن، وہ پہلے ایشین اتھلیٹ تھے۔جنہوں نے لونگ جمپ میں 8 میٹر کا جمپ لگایا تھا۔ ایتھلیٹکس میں اُن کی اس قدر  شاندار کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ میری ذاتی خواہش بن گئی کہ میں بھی ایتھلیٹکس میں کامیابی حاصل کروں۔ مجھے سخت محنت کرنا پڑی اور اس کے بعد ہی میں اس قابل ہوا کہ میں اپنے اسکول کے سالوں میں  ملکی سطح پر منعقد ہونے والے کچھ ہائی جمپ کے مقابلوں میں شرکت کر پایا۔اور پھر اسکول کے آخری سال میں میری رغبت کر کٹ کی طرف بڑھتی گئی :جب میں نے اس کھیل کو کھیلنا شروع کیا تو مجھےمعلوم ہوا کہ میں تیز گیند بازی میں مہارت رکھتا ہوں۔میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی اس مہارت کو ایک بار آزماؤں گا اور جلد ہی میں اس بات کو سمجھ گیا کہ میں اس کھیل میں کچھ بڑا کر سکتا ہوں۔

خدا کے فضل سے مجھے موقعہ ملا کہ میں دنیائےکرکٹ کے ایک نامور باؤلر ڈینس للی جو آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی رہ چکے ہیں ان سے تربیت لے سکوں۔پانچ سال اُن کی راہنمائی میں رہتے ہوئے میں نے وہ تمام چیزیں سیکھیں جن کا کھیل سے تعلق تھا۔مجھے 2001  میں موقع ملا کہ میں ملکی سطح پر انڈیا کی ٹیم کی نمایندگی کر  سکوں۔

یہ ایک خواب تھا جو پورا ہوا ۔نہ صرف میرے لیے بلکہ ریاست کیرالہ کے لیے بھی جو جنوبی بھارت  کےآخر میں واقع ہے۔اس سے پہلے کیرالہ سے کسی کو بھی یہ عزاز حاصل نہ تھا  کہ وہ ملکی سطح پر نمایندگی کر پائے یہ میرے لیے بڑے فخر کی بات تھی کہ میں کھیل کے ذریعہ نہ صرف کیرالہ بلکہ اپنے ملک کی نمایندگی کر پایا۔

دسمبر 2001 میں جب میں نے پہلی دفعہ میچ کھیلا تو اپنے پہلے ہی اوور کی چوتھی گیند پر  میں نے پہلی وکٹ حاصل کی۔میں نے  اس نئی  پچ پر بہت جلد کامیابی حاصل کی۔21 سال کی عمر میں مجھے لگا کہ میں نے کچھ کر  دیکھایا ہے۔مجھے کوئی بھی روک نہیں سکتا تھا۔اور نہ ہی کوئی کھیل سے مجھے دُور کر سکتا تھا۔میں  اس لمحہ  کے انتظار میں تھا۔مجھے یہ بھی موقعہ  مِلا کہ میں اپنے  سب سے پسندیدہ کھلاڑی سچن ٹنڈولکر کی ٹیم میں اُس کے ساتھ کھیل  سکا۔

میں اپنی قومی ٹیم کے ساتھ سفر کرتا اور اگلے دو سالوں تک کھیلتا رہا جب تک کہ 2003 میں مجھے  ایک  چوٹ کا سامنا نہ  کرنا  پڑا۔شروع میں مجھے لگا کہ میں اس  جھوٹ پر قابو پالو نگا۔میں سوچتا تھا کہ  میں ٹیم کی ضرورت  بن  چکا ہوں ۔لیکن زندگی کی حقیقت نے میرے سامنے اس خلا صہ کو کھولا کہ مواقعے بار بار نہیں ملتے۔حقیقت میں یہ سب کچھ اتنا آسان نہ تھا۔چار سال  میں نے مزید محنت کی۔تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود بھی میں ٹیم میں  واپس جگہ نہ بنا پایا۔

ایک ایسے گھرانے میں پرورش کی  وجہ سے جو خداوند یسوع مسیح کی پیروی کرتا تھا۔میں بھی دعا کرتا اور بائبل مقدس پڑھتا تھا۔میں ایک نامی مسیحی تھا جو کہ مسیح کا ایک پیروکار تھا۔جو ہر دن اپنے خاندان کے ساتھ مل کر دعا  کرتا اور بائبل پڑھتا تھا۔مگر یہ بات تب تک سامنے نہ آئی جب  تک میں کرکٹ کے میدان میں اپنی جگہ  نہ کھو رہا تھا۔تب اچانک  سے میں نے اس بات کو جانا کہ مجھے خدا کے نزدیک آنے کی ضرورت ہے۔مجھے راحت اور اطمینان ملنے لگا۔لیکن جب ایسا نہ ہوا تو میں نے خدا کی طرف دیکھنا شروع کیا۔اوروہ مختلف لوگوں کو میری زندگی میں لانے لگا۔ اُن لوگوں کو جن کو میں نہیں جانتا تھا۔جنہوں نے مجھے بتایاکہ میری زندگی میں خدا کا مقصد اور منصوبہ ہے۔اُنہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ (خدا) خودمیری حفاظت کرے گا۔

اور پھر میں خدا کے کلام کو اور زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کرنے  لگا۔2007 میں میری زندگی میں ایک دفعہ پھر سے یوٹرن آیا۔اور پھر ایک دن اچانک نہ صرف میں نے خدا کو اچھے سے جان لیا بلکہ یہ بھی کہ مسیح  کون ہے میں خدا سے دعا کرنے لگااور بائبل کو پڑھنا شروع  کر دیا لیکن اُس سے پہلے میں  کبھی یسوع مسیح کو بہتر  طور پر نہیں جانتا تھا۔میں نے اس بات کوسمجھ لیا کہ یسوع میرے لیے موا۔اُس نے اپنی زندگی دی تاکہ میں اُس میں      زندگی پاؤں۔وہ خدا ہے اور وہ مجھ میں  رہتا ہے۔

اس مکاشفہ نے میری زندگی کو اچانک  سے بدل دیا تھا۔جیسے ہی میں اُس دن اپنے پاسٹر سے ملا تو میں اپنی زندگی کو اُس کی طرف مڑتا ہوا   دیکھ رہا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں یہ جانتا تھاکہ آسمان کا خدا میرے ساتھ ہے اور وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔یہ ایک شاندار یاد دہانی تھی۔جس نے مجھے نئی زندگی دی۔

اُس دن خدا میرے ساتھ بڑے واضح طور پر ہمکلام ہوا اور مجھے بتایا کہ وہی اکیلا ہے جو زندگی بخشا ہے۔ کوئی بھی چیز اُس سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔میں جو کچھ بھی   کرتا ہوں وہ خدا کے لیے ہے کیونکہ وہی اکیلا ہے جس نے مسیح کے وسیلہ مجھے حقیقی زندگی اور سکون بخشا اس مکاشفہ نے مجھے ذہنی دباؤ ،ڈر اور پریشانی سے محفوظ رکھا۔کرکٹ کھیلنے کے عرصہ کے دوران مجھے جتنی بھی مشکلات اور پریشانیوں کا بوجھ تھا ۔سب ایک دم سے دور کر دیا گیا تھا۔

اُس دن سے  اب تک  جب بھی میں کرکٹ کے میدان میں داخل ہوتا ہوں تو میں جانتا ہوں کہ اب یہ میں نہیں ہوں بلکہ خدا مجھ میں سے ہو کر کام کر رہا ہے۔بائبل مقدس میں رومیوں کے خط 4:6 میں لکھا ہے۔’’ پس موت میں شامل ہونے کے بپتسمہ کے وسیلہ سے ہم اُسکے ساتھ دفن ہوئے تاکہ جس طرح مسیح  باپ کے جلال کے وسیلہ سے مردوں میں سے جلایا گیا اُسی طرح ہم بھی نئی زندگی میں چلیں۔‘‘اب میں پُرانا تِنو نہیں رہا تھا۔اب میں مسیح میں رہتا ہوں اور وہ مجھ میں وہی میری راہنمائی کرتا ہے۔

بائبل مقدس میں میری پسندیدہ آیت زبور 8:32 ، ہے جس میں لکھا ہے۔’’میں تجھے تعلیم دونگا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہو گا تجھے بتاؤ نگا۔میں تجھے صلاح دونگا ۔میری نظر تجھ پر ہو گی ۔‘‘  اور یہ سچ اب میری زندگی کی حقیقت اور ستون بن چکا ہے۔اور جس سے مجھے قوت ملتی ہے۔

آپ  اس دنیا میں جو کچھ مرضی حاصل کر لیں۔نام،دولت،شہرت،یسوع کے مقابلہ میں اُن کی کوئی وقعت نہیں۔آپ کی روح اس دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے۔آپ کے پاس اپنی روح کو بچانے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ صرف یسوع مسیح کے ذریعہ ممکن ہے۔خدا باپ کے پاس جا نے کا  اکیلا راستہ وہی  مسیح ہے۔میں آج جس حقیقی خوشی کا تجربہ کرتا ہوں وہ ہمارے خداوند اور نجات دھندہ یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہے۔۔

ٹینو کی پسندیدہ آیت :

’’میں تجھے تعلیم دوں گا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہو گا تجھے بتاؤں گا۔میں تجھے صلاح دُوں گا۔ میری نظر تجھ پر ہوگی۔زبور 8:32